کووڈ ویکسین کی دانشورانہ املاک کو ختم کرنا کتنا ضروری ہے؟
یورپ کے بعد امریکہ بھی کوڈ ویکسین کے دانشورانہ املاک کے تحفظ کو عارضی طور پر ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے اگر کوئی کمپنی یہ ویکسین بناتی ہے تو فائزر یا دوسری کمپنیان ُاس پر کوئی کیس دائر نہی کریں گی۔ اس سے دنیا بھر کی فارما کمپنیون کو ویکسین بنانے کی اجازت مل جائے گی اور ویکسین کی فراہمی میں تیزی آئے گی۔
مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے. ویکسین بنانے کے رائٹس ملنے کے باوجود بھی اس کا فارمولا اور خام مال اتنا پیچیدہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بڑے پیمانے پر ِاس سے فائدہ نہی اٹھا سکیں گے۔ اور جب تک ایک خاص تعداد میں دنیا بھر میں ویکسین نہی لگ جاتی کوڈ وائرس مخصوص علائقوں اپنی تباہی پھیلاتا رہے گا۔
اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ کمپنیوں کو جان بچانے والی ویکسین تیار کرنے کی اجازت ملے گی۔ ان کا موقف ہے کہ اس سے غریب ممالک میں ویکسین تک رسائی بڑھ جائے گی۔ لیکن فارما کمپنیوں سمیت مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کا مطلوبہ اثر نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ خیال اصل میں انڈیا اور جنوبی افریقہ نے تجویز کیا تھا، جو عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) میں تقریبا 60 ممالک کے ایک گروپ کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ یہ گروپ ویکسین پر دانشورانہ املاک کے تحفظ کو عارضی طور پر ختم کرنے پر زور دے رہا ہے۔
دانشورانہ املاک کیا ہے؟
دانشورانہ املاک تخلیقات کو بیان کرتی ہے، جیسے ایجادات، جو پیٹنٹ، کاپی رائٹس اور ٹریڈ مارک کے ذریعہ محفوظ ہیں۔ یہ دوسروں کو کاپی کرنے سے روکتا ہے اور ابتداء کنندہ کو مالی طور پر تحفظ دینے کی اجازت دیتا ہے۔ پیٹنٹ اختراعی فرموں کو ترقی کے اخراجات پورے کرنے اور سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لئے پیداوار پر ایک مختصر مدتی اجارہ داری دیتے ہیں۔ بائیوٹیک فرموں کا مؤقف ہے کہ اس طرح کے تحفظ نے ریکارڈ اوقات میں کوویڈ ویکسین تیار کرنے کے لئے مراعات فراہم کیں۔
بہت سے ترقی پذیر ممالک نے استدلال کیا ہے کہ پیٹنٹ اور دیگر قسم کی دانشورانہ املاک کے تحفظ کے لئے ضروری قوانین ویکسین اور اس وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے درکار دیگر مصنوعات کی پیداوار میں رکاوٹ ہیں۔ ویکسین پیٹنٹ میں چھوٹ کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں کیونکہ کم آمدنی والے ممالک کو ویکسین کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔